نقطہ نظر کہانی: ‘ہائے میرے تو بچے بہہ گئے’ ‘مدد آ رہی ہے۔ تم انتظار کرو۔ ہم نے فون کیا ہے، وہ کہہ رہے ہیں سارے ہیلی کاپٹر سیاستدانوں کو لے کر سیلاب زدہ علاقوں کی سیر کروا رہے ہیں۔’
نقطہ نظر کہانی: خوابوں میں بندوق نہیں چلائی جاسکتی بوڑھے کا باپ زندہ ہوتا تو اسےیقین نہ آتا کہ جس دریا کو پار کرنےمیں پورا ایک پہر لگتا تھا اسے محض چند قدم چل کر پار کیا جاسکتا ہے۔
نقطہ نظر کہانی: 'اشفاق تمہیں پرسوں قتل کردیا جائے گا' ٹرک نے سڑک پارکرتے ہوئے اس بچے کو کچرے کے تھیلے سمیت کچل دیا۔۔۔ بچے نے آنکھیں بند ہونے سے پہلے کہا۔۔۔ 'میرا تھیلا۔۔۔'
نقطہ نظر کہانی: ’آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے‘ اس کے باپ نے ہمیشہ کی طرح اسے نظرانداز کردیا جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ آخری بار اس کے باپ نے 6 ماہ پہلے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا
نقطہ نظر 4 مختصر کہانیاں وبا کے دنوں میں اب مزدوری ملنا مشکل ہوگیا ہے، لہٰذا آج کل وہ ہر شے بیچنا چاہتا ہے تاکہ اپنا اور بیوی بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھر سکے۔
نقطہ نظر کہانی: کاغذ کے پھول 'میں اخبار سے گلدستہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی محبوبہ کو پیش کرسکوں۔ مجھے یقین ہے پھر وہ مجھے الگ انسان سمجھے گی۔'
نقطہ نظر افسانہ: شہر بانو کے رونے کی آواز اور میری نیند میں خواب میں بھی شہربانو کے رونے کی آواز صاف سنتا رہتا تھا۔ شہر کے ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میں انسومیا کے مرض کا شکار ہوچکا ہوں۔
نقطہ نظر افسانہ: ذات لوگ آدمی کا نہیں، ذات کا احترام کرتے ہیں۔ اگر تمہاری ذات اونچی ہے اور جیب میں پیسہ ہے تو کوئی طاقت تم کو آگے بڑھنے سےنہیں روک سکتی
نقطہ نظر 6 مختصر کہانیاں ان دنوں ہسپتال کے لان میں لگے پودوں پر سُرخ گلاب آچکے ہیں تاہم ہماری پیلی آنکھیں اس منظر سے خوشی کشید نہیں کرپاتیں۔
نقطہ نظر افسانہ: چلتی ٹرین میں رُکی ہوئی کہانی ذہنی مسئلے پر بوڑھے نے کھڑکی سے نظر ہٹاکر اپنے بیٹے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر بیٹا اب اس مسافر کی جانب متوجہ تھا۔
نقطہ نظر چار مختصر کہانیاں ‘ناظرین ہم آپ کو بتاتےچلیں کہ ایک رئیس صاحب اپنی گاڑی پر اطمینان سے جارہے تھے کہ چند شرارتی نوجوان خود ان کی گاڑی تلے آکر کچلے گئے
نقطہ نظر افسانہ : دُور سے آئے ہوئے لوگ اب تو میری بیوی بچوں کا پریشانی سے بُرا حال ہوگا، اچھا ہے کچھ عرصہ وہ بھی پریشان رہیں۔ اس نے تصور میں اپنی بیوی کو روتے ہوئے دیکھا
نقطہ نظر افسانہ: کنجوس جواری قصبے کے لوگ حیران ہوتے کہ کیسے کریم بخش نے ہزاروں روپے جوئے میں لٹادیے حالانکہ وہ ایک روپیہ بھی کسی کو دینے کا روادار نہ تھا۔
نقطہ نظر افسانہ : پندرہویں سواری دم گھٹتے آدمی کی جانب اس نے توجہ نہ کی تو اس نے گھبرا کر ایک اور مسافر کی جانب دیکھا جس نے 4 سیٹیں اپنے قبضے میں لے رکھی تھیں۔
نقطہ نظر افسانہ: نیند، خوف اور سابقہ بازی گر اس نے گھر چھوڑ دیا کیونکہ اس کے دل میں موت کا کنواں بس گیا تھا اور وہ کئی سالوں سے گاؤں گاؤں، شہر شہر یہی کرتب دکھا رہا تھا۔
نقطہ نظر افسانہ: لمحوں میں اترا بڑھاپا وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میری بوڑھی ہڈیاں ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں رہیں؟ زمین آدمی کی عزت ہوتی ہے، ایسے کیسے قبضہ کرسکتے ہیں وہ لوگ
نقطہ نظر افسانہ: پاگل پن کا قانون جو لوگ پاگل ہونے سے رہ گئے تھے اس خوف کا بھی شکار تھے کہ مکمل پاگل پن کی صورت میں وہ اپنے روزمرہ کے امور کیسے سرانجام دیں گے؟
نقطہ نظر افسانہ: ’سوری! میں نے تمہارے بارے میں کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں‘ وہ انتہائی چالاک انسان اور باتیں بنانے کا ماہر تھا لیکن گاؤں کے لوگ ہر بار اس کی باتوں میں آجاتےہیں کیونکہ وہ جال ہی ایسا بنتا ہے
نقطہ نظر افسانہ: قربانی اس نے اشرف صاحب کو ہمیشہ باہمت انسان کی صورت دیکھا تھا بلکہ وہ تو اسے حوصلہ دیتےتھے اور آج خود کیسے اتنا ٹوٹا ہوا دکھائی دےرہے تھے
نقطہ نظر افسانہ: ’میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’ میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’، یہ کہہ کر اس نے تیزی سے بیوی کی کمر کے پیچھے سے تکیہ نکالا اور اس کے منہ پر رکھ دیا۔
Zahid Hussain ’طالبانیت اور فرقہ واریت کا گٹھ جوڑ‘: کیا ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں؟ زاہد حسین